دہشت گردی کے الزامات کے تحت گذشتہ 16 سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عمر
قید بامشقت کی سزا کاٹ رہے بنگلور کے مسلم شخص کو سپریم کورٹ نے مشروط
ضمانت پر رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے ۔ یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں
ملزم کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد
مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ گذشتہ کل سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ کے
جسٹس پیناکی چندرا گھوس اور جسٹس روہیتن فالی نریمن نے سن 2000میں کرناٹک
کے مختلف شہروں میں ہوئے چار بم دھماکہ معاملہ میں نچلی عدالت سے عمر قید
کی سزا پانے والے سید عبدالقادر جیلانی کو پچاس ہزار روپئے کہ ذاتی مچلکہ
پر ضمانت پر رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ ملزم کی ضمانت عرضداشت
پر ایڈوکیٹ کامنی جیسوال نے بحث کی اور عدالت کو بتایا کہ ملزم گذشتہ 16
سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہے نیز ملزم نے نچلی عدالت کے فیصلہ
کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی ہے لیکن اس پر ابھی تک سماعت شروع
نہیں ہوسکی۔
ایڈوکیٹ کامنی جیسوال نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے خلاف صرف یہ الزام ہیکہ
وہ
دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کی ٹریننگ لینے کے لیئے پاکستان گیا
تھا حالا نکہ اس تعلق سے تحقیقاتی دستوں نے نا تو اس کا پاسپورٹ ضبط کیا
اور نا ہی عدالت میں ایسا کوئی پختہ ثبوت پیش کرسکے کہ ملزم پاکستان گیا
تھا باوجود اس کے صرف دیگر ملزمین اور سرکاری گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر
ملزم کو نچلی عدالت نے قصور وار ٹہرایا تھا ۔
ایڈوکیٹ کامنی جیسوال نے عدالت کو بتایا کہ چا ر بم دھماکوں کی سماعت ایک
ساتھ عمل میںآئی لیکن عدالت نے فیصلہ الگ الگ دیا جس کی وجہ سے ملزم ایک
بم دھماکہ معاملے میں باعزت بری ہوگیا تھا لیکن دوسرے معاملے میں اسے مجرم
قرارد یا گیا ، حالانکہ قانوناً ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ساتھ سماعت ہونے
والے معاملے میں علیحدہ سزائیں سنائی جائیں لہذا عدالت کو اس بات کو مد نظر
رکھنا چاہئے کی نچلی عدالت نے فیصلہ سناتے وقت فاش غلطی کی ہے ۔ ایڈوکیٹ
کامنی جیسوال نے عدالت کو بتایا کہ سید عبدالقادر جیلانی بنگلور کا شہری ہے
اور اسے ضمانت پر رہا کیا گیا تو وہ ان تمام شرائط کی پاسداری کریگا جو
عدالت اس پر عائد کریگی نیز ملزم کی گھریلو حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے
ضمانت پر رہا کیا جانا چاہئے۔